جو ہے پس چشم نم مجھے دے دو
اپنے سارے رنج و غم مجھے دے دو
زندگی کی سہل راہوں پر چلا کرو تم
راستے کے کٹھن پیچ و خم مجھے دے دو
علم و آگہی کے اس دور جمود میں یارو
بے روشنائی میں پڑے سوکھے قلم مجھے دے دو
لہراتے ہوئے مسلکی جھنڈوں کے ہجوم میں
امت کے کٹے پھٹے، گرتے علم مجھے دے دو
دیکھنے کے لیے تماشہ ملت کی رسوائی کا یا رب
بے حس آنکھوں میں تھوڑی سی شرم مجھے دے دو
دنیا ہے دیکھنے کی چیز،۔ تم دیکھا کرو
بس میرے مقدر کا لکھا سفر حرم مجھے دے دو
مانگتے رہو رزاق سے تم لگا کے بھیڑ خاکی
بس رحمان کے دئیے رحم و کرم مجھے دے دو
وسیم احمد خاکی
No comments:
Post a Comment