انا کی کرچیوں پر چل رہا ہوں
کچھ ایسی بے کسی سے پل رہا ہوں
ازل سے یونہی افسردہ نہیں میں
کبھی میں شوخ اور چنچل رہا ہوں
مسائل اب جو مجھ کو گھیرتے ہیں
میں خود ان مسئلوں کا حل رہا ہوں
تہی دامن بھٹکتا ہوں، میں اب تو
کرے جل تھل، میں وہ بادل رہا ہوں
لُٹاتے تھے کبھی، لعل و جواہر
یہ خالی ہاتھ، جن کو مل رہا ہوں
تھا میں بھی ہمنشینِ شہ سواراں
نہ سمجھو میں سدا پیدل رہا ہوں
تھا منظورِ نظر سب کا، مگر اب
نظر انداز ہو کر، ٹل رہا ہوں
نہ میری سست رفتاری پہ جاؤ
شکتہ پا ہوں، پھر بھی چل رہا ہوں
نہ ان رعشہ زدہ ہاتھوں پہ جاؤ
کئی لوگوں کا میں، کس بل رہا ہوں
میرے آگے جو ہیں، ارفع و اعلیٰ
کبھی میں ان سے بھی افضل رہا ہوں
کفالت کی ہے ان کی زندگی بھر
میں اب ٹکڑوں پہ جن کے پَل رہا ہوں
گو ہوں تا حال، کچھ کے سر کا سایہ
اگرچہ دھوپ میں خود جل رہا ہوں
خیال ان کو نہیں، مسعود! میرا
میں جن کے واسطے بیکل رہا ہوں
مسعود قاضی
No comments:
Post a Comment