Tuesday 23 August 2022

مرے کمرے میں واحد شے نظر بھر کا اثاثہ تھی

 مِرے کمرے میں واحد شے نظر بھر کا اثاثہ تھی

تِری تصویر دُھندلی سی فقط زر کا اثاثہ تھی

سمٹ کے رہ گئی مجھ میں تخیل کی فراوانی

تمہاری یاد ہی گویا مِرے گھر کا اثاثہ تھی

وہ مجھ سے دور جا کر بھی مِرے ہی پاس لوٹا تھا

مِلن کی چاہ اے فوزی! مِرے سر کا اثاثہ تھی

مِرے اس من کے درپن میں دریچے سوچ کے وا تھے

مِری اس روح کی پرواز ہی پر کا اثاثہ تھی

تمہیں بھی ڈھونڈ لائے گا تمہارا یہ دِوانہ پن

محبت آخری میری اسی در کا اثاثہ تھی

نہ تھا منظور قسمت کو وگرنہ خیر ہونا تھا

جدائی تجھ سے اے ظالم کسی شر کا اثاثہ تھی

اسی احساس سے دل کو ردا! اک خوف لاحق تھا

بچھڑنے کی سزا ہی تو مِرے ڈر کا اثاثہ تھی


فوزیہ اختر ردا

No comments:

Post a Comment