Saturday, 30 May 2020

حال مت پوچھ عشق کرنے کا

حال مت پوچھ عشق کرنے کا
عمر جینے کی، شوق مرنے کا
وہ محبت کی احتیاط کے دن
ہائے موسم وہ خود سے ڈرنے کا
اب اسے آئینے سے نفرت ہے
کل جسے شوق تھا سنورنے کا

تم کیا جانو

تم کیا جانو

خواب، سفر کی دھوپ کے تیشے
خواب، ادھوری رات کا دوزخ
خواب، خیالوں کا پچھتاوا
خواب کی منزل رسوائی
خواب کا حاصل تنہائی

ہم کو بھی چھپا اے شب غم اپنے پروں میں

ہم کو بھی چھپا اے شبِ غم اپنے پروں میں
ہم لوگ بھی شامل ہیں تیرے ہم سفروں میں
اے دیدہ وری! میں تِرے معیار کا مجرم
پھر لے کے چلا اپنے گہر کم نظروں میں
بادل تو برستے ہیں، مگر بانجھ زمین پر
سورج تو ابھرتا ہے مگر بے بصروں میں

Wednesday, 27 May 2020

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے

گیت/غزل

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے
جسم کی بات نہیں، ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے
گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے

نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے

نیند سے آنکھ کھلی ہے، ابھی دیکھا کیا ہے
دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
ریت کی، اینٹ کی، پتھر کی ہوں یا مٹی کی
کسی دیوار کے سائے کا بھروسہ کیا ہے

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تِری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے
کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں، مگر
چھو کے دیکھا جو انہیں تو ہاتھ گیلے ہو گئے

زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا

زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں جل کر بھی کیا ملا تجھ کو
اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا

اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے

اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے
اب بول محبت کے مزا کیوں نہیں دیتے
تم کھول کے زلفوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
تم شان گھٹاؤں کی گھٹا کیوں نہیں دیتے
اک گھونٹ کی امید سمندر سے نہیں جب
پھر آگ سمندر میں لگا کیوں نہیں دیتے

Tuesday, 26 May 2020

موت آئی ہے زمانے کی تو مر جانے دو

موت آئی ہے زمانے کی تو مر جانے دو
کم سے کم اس کی جوانی تو گزر جانے دو
جاگ اٹھیں گے ہم ابھی ایسی ضرورت کیا ہے
دھوپ دیوار سے کچھ اور اتر جانے دو
مدتیں ہو گئیں اک بات مِرے ذہن میں ہے
سوچتا ہوں تمہیں بتلاؤں مگر جانے دو

جس طرح پیاسا کوئی آب رواں تک پہنچے

جس طرح پیاسا کوئی آبِ رواں تک پہنچے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس کے مکاں تک پہنچے
"شرط اتنی تھی "محبت میں بدن تک پہنچو
ہم جنوں پیشہ مگر یار کی جاں تک پہنچے
تیری چوکھٹ پہ پلٹ آئے تِرے دیوانے
بے اماں یعنی اسی جائے اماں تک پہنچے

درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں

درد کی دھوپ ڈھلے غم کے زمانے جائیں
دیکھیے روح سے کب داغ پرانے جائیں
ہم کو بس تیری ہی چوکھٹ پہ پڑے رہنا ہے
تجھ سے بچھڑیں، نہ کسی اور ٹھکانے جائیں
اپنی دیوارِ انا آپ ہی کر کے مِسمار
اپنے روٹھوں کو چلو آج منانے جائیں

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے
اس کو پانے کا عجب دل میں جنوں ہے یوں ہے
عادتاً کرتا ہے وہ وعدہ خلافی پہلے
پھر بناتا ہے بہانے بھی کہ یوں ہے یوں ہے
مجھ کو معلوم ہے لوٹ آئے گا میری جانب
اس کے جانے پہ بھی اس دل میں سکوں ہے یوں ہے

عشق جب تجھ سے ہوا ذہن کے جگنو جاگے

عشق جب تجھ سے ہوا ذہن کے جگنو جاگے
لفظ پیکر میں ڈھلے سوچ کے پہلو جاگے
دیکھیے کھلتا ہے اب کون سے احساس کا پھول
دیکھیے روح میں اب کون سی خوشبو جاگے
جانے کب میرے تھکے جسم کی جاگے قسمت
جانے کب یار تِرے لمس کا جادو جاگے

ایک لغزش میں در پیر مغاں تک پہنچے

ایک لغزش میں درِ پیرِ مغاں تک پہنچے
ہم بھٹکتے تھے کہاں اور کہاں تک پہنچے
لطف تو جب ہے کہ اے محرمِ حسن گفتار
ہو کوئی بات مگر حسنِ بتاں تک پہنچے
یہ بھی کچھ کم نہیں اے رہروِ اقلیمِ یقیں
ہم خرابات نشیں حسنِ گماں تک پہنچے

ہم تری چاہ میں اے یار وہاں تک پہنچے

ہم تِری چاہ میں اے یار وہاں تک پہنچے
ہوش یہ بھی نہ جہاں ہیں کہ کہاں تک پہنچے
اتنا معلوم ہے خاموش ہے ساری محفل
پر نہ معلوم یہ خاموشی کہاں تک پہنچے
وہ نہ گیانی، نہ وہ دھیانی، نہ برہمن، نہ وہ شیخ
وہ کوئی اور تھے جو تیرے مکاں تک پہنچے

پیار کی کہانی چاہیے

پیار کی کہانی چاہیے
٭٭٭٭
آدمی کو آدمی بنانے کے لیے
زندگی میں پیار کی کہانی چاہیے
اور کہنے کے لیے کہانی پیار کی
سیاہی نہیں، آنکھوں والا پانی چاہیے

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے 
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے 
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر 
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں، جہلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے

جب بھی اس شہر میں کمرے سے میں باہر نکلا

جب بھی اس شہر میں کمرے سے میں باہر نکلا
میرے سواگت کو ہر ایک جیب سے خنجر نکلا 
تتلیوں پھولوں کا لگتا تھا جہاں پر میلہ
پیار کا گاؤں وہ بارود کا دفتر نکلا
ڈوب کر جس میں ابھر پایا نہ میں جیون بھر
ایک آنسو کا وہ قطرہ تو سمندر نکلا

زندگی پیار کا گیت ہے اسے ہر دل کو گانا پڑے گا

فلمی گیت

زندگی پیار کا گیت ہے، اسے ہر دل کو گانا پڑے گا
زندگی غم کا ساگر بهی ہے، ہنس کی اس پار جانا پڑے گا
زندگی ایک احساس ہے، ٹوٹے دل کی کوئی آس ہے
زندگی ایک بنواس ہے، کاٹ کر سب کو جانا پڑے گا
زندگی بیوفا ہے تو کیا؟ اپنے روٹهے ہے ہم سے تو کیا؟
ہاتھ میں ہاتھ نہ ہو تو کیا؟ ساتھ پهر بهی نبهانا پڑے گا

ہم بے وفا ہرگز نہ تھے پر ہم وفا کر نہ سکے

فلمی گیت

ہم بے وفا ہرگز نہ تھے پر ہم وفا کر نہ سکے
ہم کو ملی اس کی سزا ہم جو خطا کر نہ سکے

کتنی اکیلی تھیں وہ راہیں ہم جن پہ اب تک اکیلے چلتے رہے
تجھ سے بچھڑ کے بھی او بے خبر تیرے ہی غم میں جلتے رہے
تُو نے کیا جو شکوہ ہم وہ گِلہ کر نہ سکے
ہم بے وفا ہرگز نہ تھے پر ہم وفا کر نہ سکے
ہم کو ملی اس کی سزا ہم جو خطا کر نہ سکے

سانحہ یہ میری زندگی سہہ گئی

سانحہ یہ میری زندگی سہہ گئی
میں یہاں آ گیا وہ وہاں رہ گئی
کچھ نہ میں کر سکا، دیکھتا رہ گیا 
کچھ نہ وہ کر سکی، دیکھتی رہ گئی
لوگ کہتے ہیں تقسیم سب ہو گیا 
جو نہیں بٹ سکی چیز وہ رہ گئی

میں کوئی برف نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا

میں کوئی برف نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا
میں تو جادو ہوں جادو ہوں  میں چل جاؤں گا
میں کوئی برف نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا
میں کوئی حرف نہیں ہوں جو بدل جاؤں گا
میں سہاروں پہ نہیں خود پہ یقیں رکھتا ہوں
گر پڑوں تو ہوا کیا میں سنبھل جاؤں گا

کلرک کا نغمہ محبت

کلرک کا نغمۂ محبت

سب رات مِری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اٹھتا ہوں، منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی، وہ میرا آج کا ناشتہ ہے

سمندر کا بلاوا

سمندر کا بلاوا

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں، اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے 
دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا
مِرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر

عکس کی حرکت

عکس کی حرکت

کچھ رنگ کا نور، کچھ آوازیں، کچھ سائے، دھندلکے کا پردہ 
اور مجھ کو جھجک ہے کیسے کہوں، سننے والے جھلائیں گے
اک مورت ہے، میٹھی من موہنی صورت ہے 
انمول بدن، اک چندر کرن لہراتی ہے 
بہتی ندی بل کھاتی ہے

Monday, 25 May 2020

سائیاں ہمارے سر سے وباؤں کو ٹال دے

سائیاں

سائیاں میں آج چھوٹی سی اک التجا کروں
سائیاں ہمارے دل سے کدورت نکال دے
سائیاں ہمیں ہجوم کی مستی سے اب نکال
سائیاں ہمیں حسین کی چوکھٹ پہ ڈال دے
ماؤں سے بڑھ کے پیار کسے ہے تِرے سوا؟
سائیاں ہمارے سر سے وباؤں کو ٹال دے

دریا کو یاد ہوں گی کناروں کی تلخیاں

دریا کو یاد ہوں گی کناروں کی تلخیاں
بھولی نہیں خزاں بھی بہاروں کی تلخیاں
دنیا کی بھِیڑ میں مجھے غیروں سے کیا گِلا
دل بجھ گیا ہے دیکھ کے پیاروں کی تلخیاں
بچپن میں یار جس نے یتیمی کا غم سہا
اس کو بھی یاد ہوں گی سہاروں کی تلخیاں

کون کہتا ہے عشق راحت ہے

کون کہتا ہے عشق راحت ہے
عشق یارو! بڑی اذیت ہے
تلخ لہجوں کو روز سہہ لینا
صبر رب کی عظیم نعمت ہے
عزتِ یار جو بھی کرتا ہے
ہر جگہ پہ اسی کی عزت ہے

Saturday, 23 May 2020

لوگ کہتے ہیں زمانے میں محبت کم ہے

لوگ کہتے ہیں زمانے میں محبت کم ہے​
یہ اگر سچ ہے تو اس میں حقیقت کم ہے​
چند لوگوں نے اگر محل بنا رکھے ہیں​
اس کا مطلب نہیں کہ شہر میں غربت کم ہے​
اک ہم ہی نہ تھے جو یوں فراموش ہوئے ورنہ​
بھول جانے کی اس شخص کو عادت کم ہے​

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے، فنا ہوتا نہیں

Friday, 22 May 2020

کمرے میں تیس روز سے دیوانہ بند ہے

کمرے میں تیس روز سے دیوانہ بند ہے
تم رو رہے ہو شہر کو، ویرانہ بند ہے
مکّے میں ہے طوافِ حرم بھی رکا ہوا
اور مے کدے میں گردشِ پیمانہ بند ہے
اک شمع جل رہی ہے اکیلی مزار پر
پروانگی حرام ہے،۔ پروانہ بند ہے

Thursday, 21 May 2020

بخت جب کرب کے سائے میں ڈھلا ہو بابا

بخت جب کرب کے سائے میں ڈھلا ہو بابا
ہم فقیروں کی دعا ہے کہ بھلا ہو بابا
کیا پتہ اس کو ہو پچھتاوا بچھڑ جانے پہ
ہاتھ افسوس سے اس نے بھی ملا ہو بابا
اس کا کیا جس کو تپش تھوڑی لگے سورج کی
پاؤں جس شخص کا چھاؤں میں جلا ہو بابا

حادثے کون بھلا ٹالے ہوا کرتے ہیں

حادثے کون بھلا ٹالے ہوا کرتے ہیں
وقت کے ہاتھ میں جب بھالے ہوا کرتے ہیں
یہ تو ماتھے پہ اترتا ہوا روشن سکھ ہے
عشق میں بخت کہاں کالے ہوا کرتے ہیں
دل میں آنے کا کوئی در تو کھلا رہنے دے
بند کمروں میں فقط جالے ہوا کرتے ہیں

مجھے نہ باپ کی نازوں پلی کہا جائے

مجھے نہ باپ کی نازوں پلی کہا جائے
وہ کرب ہے کہ بس جنموں جلی کہا جائے
ملا تھا باغ میں کچھ دن قیام کا موقع
لہذا شاخ سے ٹوٹی کلی کہا جائے
فقط گناہ ہیں منسوب ہم سے، باقی لوگ
وہ پارسا ہیں کہ ان کو "ولی" کہا جائے

تجھے دعا کے علاوہ فقیر کیا دے گا

کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا
غزل کی صنف کو شاہد کبیر کیا دے گا
انا کو بیچ کے عظمت خرید سکتے ہیں
ضمیر کیا ہے، کسی کو ضمیر کیا دے گا
بس اک گماں کے تعاقب میں لوگ چلتے ہیں
سفر کو سمت کوئی راہگیر کیا دے گا

روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے

زندگی تو خفا ہم سے ہے ہی موت بھی نہ کہیں روٹھ جائے
روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے
آہ کیونکر نہ پہنچے فغاں تک گھر جلے اور نہ نکلے، دھواں تک
اس کو دو گے تسلی کہاں تک جس کی تقدیر ہی پھوٹ جائے
گدگدی سے صبا کی مچل کر ناز کرتی ہے اپنے بدن پر
ان کی انگڑائیاں دیکھ لے گر شاخ گُل کی کمر ٹوٹ جائے

ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو

ہوتی نہیں وفا تو جفا ہی کیا کرو
تم بھی تو کوئی رسمِ محبت ادا کرو
ہم تم پہ مر مٹے تو یہ کس کا قصور ہے
آئینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو
اب ان پہ کوئی بات کا ہوتا نہیں اثر
منت کرو،۔ سوال کرو،۔ التجا کرو

دل ہوم ہوم کرے گھبرائے

فلمی گیت

دل ہوم ہوم کرے، گھبرائے
گھن دھم دھم کرے، ڈر جائے
اک بوند کبھی پانی کی
موری انکھیوں سے برسائے
دل ہوم ہوم کرے، گھبرائے

کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں

کھلی کتاب کے صفحے الٹتے رہتے ہیں
ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں
بس ایک وحشتِ منزل ہے اور کچھ بھی نہیں
کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ہیں
مجھے تو روز کسوٹی پہ درد کستا ہے
کہ جاں سے جسم کے بخیے ادھڑتے رہتے ہیں

کندھے جھک جاتے ہیں

کندھے جھک جاتے ہیں 
کندھے جھک جاتے ہیں جب بوجھ سے اس لمبے سفر کے
ہانپ جاتا ہوں میں جب چڑھتے ہوئے تیز چڑھانیں
سانسیں رہ جاتی ہیں جب سینے میں اک گچھا سا ہو کر
اور لگتا ہے کہ دم ٹوٹ ہی جائے گا یہیں پر
ایک ننھی سی میری نظم سامنے آ کر

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے

کتابیں

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے

Wednesday, 20 May 2020

اجل ان سے مل

تعارف

اجل! ان سے مل
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب
نہ اہلِ کتاب
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین

جاگ اے شمع شبستان وصال

دریچے کے قریب

جاگ اے شمعِ شبستانِ وصال
محفلِ خواب کے اس فرشِ طرب ناک سے جاگ
لذتِ شب سے تِرا جسم ابھی چُور سہی
آ مِری جان! مِرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں

یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں

یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیمِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوطِ نور سے ہر حاشیہ مزین تھا
کتابِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں

حسرت انتظار یار نہ پوچھ

حسرتِ انتظارِ یار نہ پوچھ
ہائے وہ شدتِ انتظار نہ پوچھ 
رنگِ گلشن دمِ بہار نہ پوچھ
وحشتِ قلبِ بے قرار نہ پوچھ
صدمۂ عندلیبِ زار نہ پوچھ
تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ

کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں

کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
مِرے جذبِ دل کے بلائے ہوئے ہیں
کجی پر جو افلاک آئے ہوئے ہیں
ان آنکھوں کے شاید سِکھائے ہوئے ہیں
کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ
یہ سب گھر تمہارے بسائے ہوئے ہیں

سب پھول ترے باغ تھے اک خار ہمیں تھے

محفل سے اٹھانے کے سزاوار ہمیں تھے
سب پھول تِرے باغ تھے اک خار ہمیں تھے
ہم کس کو دکھاتے شبِ فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے
سودا تِری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے
مر کر بھی نہ چھوٹے وہ گرفتار ہمیں تھے

جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں

جوش پر تھیں صفت ابرِ بہاری آنکھیں
بہ گئیں آنسوؤں کے ساتھ ہماری آنکھیں
ہیں جلو میں صفتِ ابرِ بہاری آنکھیں
اٹھنے دیتی ہیں کہاں گرد سواری آنکھیں
کیوں اسیرانِ قفس کی طرف آنا چھوڑا
پھیر لیں تُو نے بھی اے بادِ بہاری آنکھیں

مدتوں بعد ہم کسی سے ملے

مدتوں بعد ہم کسی سے ملے 
یوں لگا جیسے زندگی سے ملے 
اس طرح کوئی کیوں کسی سے ملے 
اجنبی جیسے اجنبی سے ملے 
ساتھ رہنا مگر جدا رہنا 
یہ سبق ہم کو آپ ہی سے ملے 

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

جا کر بھی مِری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے
تُو بھی مِری مشکل ہے، مِرا حل تو نہیں ہے
منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم
یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے
خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا
تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے

Tuesday, 19 May 2020

جس کو کہتے تھے یار یار یہاں

جس کو کہتے تھے یار، یار یہاں
آج تنہا ہے شرمسار یہاں
وقت کے ہاتھ سب کھلونے ہیں
خود پہ کس کو ہے اختیار یہاں
دشمنی شغل شہر کا ہے مِرے
اور محبت ہے کاروبار یہاں

Friday, 8 May 2020

دل جلا کر بھی اجالا نہیں ہونے والا

دل جلا کر بھی اجالا نہیں ہونے والا
یہ جو آنسو ہے ستارا نہیں ہونے والا
زخم ہے یہ کہ دھکتا ہوا انگارہ ہے
درد وہ ہے کہ مداوا نہیں ہونے والا
جانے کیوں عشق میں ہم خود کو بنا بیٹھے ہیں
اک تماشا جو دوبارہ نہیں ہونے والا

صبح کی آنکھ میں جو لالی ہے

صبح کی آنکھ میں جو لالی ہے
روشنی قتل ہونے والی ہے
یہ کہیں عہدِ تیرگی تو نہیں؟
دن بھی کالا ہے سب بھی کالی ہے
ہر پرندہ جس کو چھوڑ گیا
آج ہر آشیانہ خالی ہے

کہ جس میں بھائی لڑتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا

جہاں خود غرضیاں ہوں وہ نگر اچھا نہیں لگتا
کہ جس میں بھائی لڑتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا
وہ دستارِ انا پہنے قبیلے کا ستارہ ہے
امیرِ شہر کو لیکن وہ سر اچھا نہیں لگتا
جو والد کا بڑھاپے میں سہارا بن نہیں سکتا
جو سچ پوچھو تو وہ لختِ جگر اچھا نہیں لگتا

وبائے عام میں عمران ڈر جانا نہیں آتا

کورونا شاعری

وبائے عام میں عمران ڈر جانا نہیں آتا
ذرا محتاط ہوتے ہیں، پہ گھبرانا نہیں آتا
مجھے بھی جینا آتا ہے بہ طرزِ حضرتِ غالب
وبا کے خوف سے گھٹ گھٹ کے مر جانا نہیں آتا
مرض یہ عارضی ہے، دائمی تو ہو نہیں سکتا
کوئی بھی درد ہو اس کو ‘‘ٹھہر’’ جانا نہیں آتا

اس کورونا نے کھڑی کیسی مصیبت کر دی

کورونا شاعری

اس کورونا نے کھڑی کیسی مصیبت کر دی
پوری دنیا میں بپا گویا ‘‘قیامت’’ کر دی
سوچتا ہوں جو نتائج تو لرز جاتا ہوں
لاک ڈاؤن تو کیا، نرمی میں عجلت کر دی
یہ بھی خدشہ ہے کہ فاقوں کی وبا پھوٹے گی
لاک ڈاؤن میں اگر اور طوالت کر دی

خوف و ہراس پھیلا ہے قرب و جوار میں

کورونا شاعری

خوف و ہراس پھیلا ہے قُرب و جوار میں
جب سے وبا یہ آئی ہے اپنے دیار میں
اک پَل تو یوں لگا کہ کورونا مجھے بھی ہے
میں نے علامتیں جو پڑھیں اشتہار میں
کیسی ہے یہ وبا؟ کہ کوئی پوچھتا نہیں
بیگانے ہو کے رہ گئے اپنے دیار میں

یوں نہ مل مجھ سے ڈرا ہو جیسے

کورونا شاعری

یوں نہ مِل مجھ سے ڈرا ہو جیسے
تن مِرا وجہِ وبا ہو جیسے
اپنے ‘احساس’ کی دھجی نہ اڑا
میرا حق، تیری عطا ہو جیسے
دی جو امداد تو اس ناز کے ساتھ
’’مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے‘‘

Friday, 1 May 2020

زندگی تب تلک ہدف ہو گی

زندگی تب تلک ہدف ہو گی
جب تلک جاں نہ یہ تلف ہو گی
جس ورق سے بھی زیست پڑھ لیجئے
حرف در حرف سر بکف ہو گی
دشمنوں کو پچھاڑ بھی لوں تو
سامنے دوستوں کی صف ہو گی

کدھر کو جائیں گے اہل سفر نہیں معلوم​

کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم​
وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم​
ہمارے شہر میں ہر روز اک قیامت ہے
یہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں معلوم
ہمارا صبر تجھے خاک میں ملا دے گا
ہمارے صبر کا تجھ کو اثر نہیں معلوم

بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں

بلاتی ہے مگر جانے کا نئیں
وہ دنیا ہے ادھر جانے کا نئیں
زمیں رکھنا پڑے سر پر تو رکھو
چلے ہو تو ٹھہر جانے کا نئیں
جنازے ہی جنازے ہیں سڑک پر
ابھی ماحول مر جانے کا نئیں