حال مت پوچھ عشق کرنے کا
عمر جینے کی، شوق مرنے کا
وہ محبت کی احتیاط کے دن
ہائے موسم وہ خود سے ڈرنے کا
اب اسے آئینے سے نفرت ہے
کل جسے شوق تھا سنورنے کا
کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر، نہیں معلوم
وہ بدحواسی ہے، اپنا ہی گھر نہیں معلوم
ہمارے شہر میں ہر روز اک قیامت ہے
یہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں معلوم
ہمارا صبر، تجھے خاک میں ملا دے گا
ہمارے صبر کا تجھ کو اثر نہیں معلوم