Saturday 20 April 2024

عرصوں کے آنسو تکیے میں بسے

 عرصوں کے آنسو


تکیے میں بسے آنسو

آنکھوں سے جو

پونچھے نہ گئے

ان سارے دنوں

کی تہوں سے جو

بہتے ہی رہے

اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے

 اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے

ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے

نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو

خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے

کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا

ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے

تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

 تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے

جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات

کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے

پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا

دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے

Friday 19 April 2024

غمگساری دوست مایوس نہ ہو

غمگساری


دوست مایوس نہ ہو

سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر

تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے

تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی

اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے

جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی

رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں

 رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں

اک بات ہے جو آپ کی دُزدیدہ نظر میں

معلوم یہ ہوتا ہے نہیں منزلِ مقصود

محسوس یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہے سفر میں

قیمت میں مہ و مہر سے بڑھ کے ہوں مگر قدر

اِک سنگ ہوں ٹھکرایا ہوا راہگزر میں

بوڑھے شوہر سے محبت کی نشانی مانگے

 زعفرانی کلام


بوڑھے شوہر سے محبت کی نشانی مانگے

کام کرنے کو بھی گھر والی زنانی مانگے

عشق آسان نہیں پوچھ کسی ٹھرکی سے

اتنا مشکل ہے کہ بے کار جوانی مانگے

سر پہ پڑتا ہےمحبت سے وہ تگڑا بیلن

وہ جو بیوی سے کبھی حسن معانی مانگے

نقاد سے ملنا ہے خطرناک کہ ہر دم

 نقاد زعفرانی کلام


نقاد سے ملنا ہے خطرناک کہ ہر دم

وہ حالت تبخیر تخیل میں ملے گا

دن رات وہ اک خاص اکڑفوں کی ادا سے

ذہنیت معکوس کے فرغل میں ملے گا

بس ایک ہی محور پہ وہ ناچے گا ہمیشہ

جب دیکھیے گرداب تقابل میں ملے گا