بحر دقیانوسیت
زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت
سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں
کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر
جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
بحر دقیانوسیت
زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت
سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں
کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر
جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے
مِرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے
میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے
یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں
وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے
جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں
اپنی عظمت کو سمجھ پاتا نہیں
جستجو میں خود جو کھو جاتا نہیں
گوہر مقصود کو پاتا نہیں
کس کو دیکھیں اس بھری دنیا میں ہم
کوئی بھی تم سا نظر آتا نہیں
اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے
کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے
پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا
کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے
کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا
یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
میں اپنی ذات میں تنہا
میں اپنی ذات میں تنہا
سبھی ہیں دوست میرے پر
نہیں ہے چارہ گر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں
یہاں ہر سمت ویرانی
گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم
کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم
یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے
خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم
دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے
خیانت کے علمبردار ہیں ہم