Monday, 7 April 2025

بحر دقیانوسیت زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

 بحر دقیانوسیت


زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں

کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر

جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

 نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

مِرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے

میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں

وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے

یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں

وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے

جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں

 جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں

اپنی عظمت کو سمجھ پاتا نہیں

جستجو میں خود جو کھو جاتا نہیں

گوہر مقصود کو پاتا نہیں

کس کو دیکھیں اس بھری دنیا میں ہم

کوئی بھی تم سا نظر آتا نہیں

اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

 اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے

پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا

کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے

کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا

یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے

Sunday, 6 April 2025

وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

وہ صدر ہے بزم اصطفا کا

امام ہے خیل انبیا کا

ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا

معین انصاف او وفا کا

مٹانے والا وہ جفا کا

میں اپنی ذات میں تنہا

 میں اپنی ذات میں تنہا


میں اپنی ذات میں تنہا

سبھی ہیں دوست میرے پر

نہیں ہے چارہ گر کوئی

میں اپنی ذات میں تنہا

کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں

یہاں ہر سمت ویرانی

گماں اس کا ہے نیکوکار ہیں ہم

 گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم 

کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم

یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے 

خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم

دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے

خیانت کے علمبردار ہیں ہم