حُسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا
صرف اک حُسنِ نظر ہے تِرے دیوانے کا
عشق رُسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی
اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا
کار فرما تِرے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ
شمع سے دُور کا رشتہ نہیں پروانے کا
حُسن کعبے کا ہے کوئی نہ صنم خانے کا
صرف اک حُسنِ نظر ہے تِرے دیوانے کا
عشق رُسوا بھی ہے مجبور بھی دیوانہ بھی
اور ابھی خیر سے آغاز ہے افسانے کا
کار فرما تِرے جلوؤں کی کشش ہے ورنہ
شمع سے دُور کا رشتہ نہیں پروانے کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سارے عالم کے غمگسار سلام
آپﷺ پر جان و دل نثار سلام
چاند ٹکڑے ہو اک اشارے پر
ایسے مولا پہ بے شمار سلام
سارے نبیوں کے آپ ہی ہیں امام
ہم کریں کیوں نہ بار بار سلام
مزاجِ زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی
اسی اڑتے ہوئے بادل میں بجلی بھی ہے پانی بھی
جمالِ موت پر قدرت نے پردے ڈال رکھے ہیں
وگر نہ بار ہو جاتا خیالِ زندگانی بھی
سماعت خود تصور کے جھروکے کھول دیتی ہے
بڑی نظارہ پرور ہے صدائے لن ترانی بھی
پتے کی طرح ٹوٹ کے نظروں سے گرا ہوں
ہر رنگ سے میں برسر پیکار رہا ہوں
مجھ کو ورق دفتر فرسودہ نہ سمجھو
ہر دور کے دیوان کا میں نغمہ سرا ہوں
صدیوں سے مسلط تھا وہ اک لمحۂ جاوید
تنہائیٔ شب میں جو کبھی تجھ سے ملا ہوں
دل حبیبوں نے دُکھایا ہے کوئی بات نہیں
فرض تھا ان کا نبھایا ہے کوئی بات نہیں
میرے مونس میرے یاروں نے دوا کے بدلے
زہر گر مجھ کو پلایا ہے کوئی بات نہیں
سادگی دل کی تو دیکھو کہ فریبِ اُلفت
جانتے بُوجھتے کھایا ہے کوئی بات نہیں
سکون ہے دن کو میسر نہ شب کو سونے میں
تمام عمر کٹی دل کے داغ دھونے میں
یہ جانتی ہیں بہت دن سے انگلیاں میری
ہے کس کے لمس کی خوشبو مِرے بچھونے میں
میں آدھی رات کو بستر پہ چونک اٹھتا ہوں
سسک رہا ہوں کوئی جیسے گھر کے کونے میں
لوگ جب اپنی حقیقت جاننے لگ جائیں گے
زندگی سے زندگی کو مانگنے لگ جائیں گے
دور کرئیے آستینوں سے انہیں ورنہ ضرور
ایک دن یہ سانپ سر پے ناچنے لگ جائیں گے
ریت ہو یا راکھ ہو برباد مت کرئیے اسے
کیا پتہ کب لوگ ان کو پھانکنے لگ جائیں گے