عرصوں کے آنسو
تکیے میں بسے آنسو
آنکھوں سے جو
پونچھے نہ گئے
ان سارے دنوں
کی تہوں سے جو
بہتے ہی رہے
عرصوں کے آنسو
تکیے میں بسے آنسو
آنکھوں سے جو
پونچھے نہ گئے
ان سارے دنوں
کی تہوں سے جو
بہتے ہی رہے
اگر خود اپنے مراتب سے آشنا ہو جائے
ذرا سی دیر میں انسان کیا سے کیا ہو جائے
نہ جانے کتنے دلوں سے امنڈ پڑے آنسو
خدا کرے یہ مرا ساز بے صدا ہو جائے
کسی کتاب کسی رہنما کی حاجت کیا
ہر ایک نقص اگر شعر میں روا ہو جائے
تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے
جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے
جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات
کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے
پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا
دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے
غمگساری
دوست مایوس نہ ہو
سلسلے بنتے بگڑتے ہی رہے ہیں اکثر
تیری پلکوں پہ یہ اشکوں کے ستارے کیسے
تجھ کو غم ہے تری محبوب تجھے مل نہ سکی
اور جو زیست تراشی تھی ترے خوابوں نے
جب پڑی چوٹ حقائق کی تو وہ ٹوٹ گئی
رعنائی وہ گل میں ہے نہ برنائی سحر میں
اک بات ہے جو آپ کی دُزدیدہ نظر میں
معلوم یہ ہوتا ہے نہیں منزلِ مقصود
محسوس یہ ہوتا ہے کہ دنیا ہے سفر میں
قیمت میں مہ و مہر سے بڑھ کے ہوں مگر قدر
اِک سنگ ہوں ٹھکرایا ہوا راہگزر میں
زعفرانی کلام
بوڑھے شوہر سے محبت کی نشانی مانگے
کام کرنے کو بھی گھر والی زنانی مانگے
عشق آسان نہیں پوچھ کسی ٹھرکی سے
اتنا مشکل ہے کہ بے کار جوانی مانگے
سر پہ پڑتا ہےمحبت سے وہ تگڑا بیلن
وہ جو بیوی سے کبھی حسن معانی مانگے
نقاد زعفرانی کلام
نقاد سے ملنا ہے خطرناک کہ ہر دم
وہ حالت تبخیر تخیل میں ملے گا
دن رات وہ اک خاص اکڑفوں کی ادا سے
ذہنیت معکوس کے فرغل میں ملے گا
بس ایک ہی محور پہ وہ ناچے گا ہمیشہ
جب دیکھیے گرداب تقابل میں ملے گا