Wednesday, 3 December 2025

کچھ لوگ ترے شہر کو اب چھوڑ چلے ہیں

 کچھ لوگ تِرے شہر کو اب چھوڑ چلے ہیں

یہ بامِ فلک، ماہِ عرب چھوڑ چلے ہیں

اب زیست میں شاید کہ سِناں کا ہی سفر ہے

جینے کا یہاں اور ہی ڈھب چھوڑ چلے ہیں

اک دشت سنائے گا کہانی یہ ہماری

ہم ریت پہ سب نام و نسب چھوڑ چلے ہیں

اس ایک حوالے سے ہمیں یاد رکھو گے

ہم نغمۂ گل، فصلِ طرب چھوڑ چلے ہیں

ناموس ہماری سے جو غافل ہے ابھی تک

ہم اس کو مثالِ بو لہب چھوڑ چلے ہیں

مقتل میں کیا ہے انہیں تحریر لہو سے

تاریخ کے دامن میں کتب چھوڑ چلے ہیں


علی عمار کاظمی

No comments:

Post a Comment