الفت میں کیا بشر سے بشر بولتے نہیں
کیوں عاشقوں سے رشکِ قمر بولتے نہیں
شیریں لبوں کی یاد میں لب ان کے بند ہیں
شاخوں پہ اس لیے یہ ثمر بولتے نہیں
وصلت کی شب کو حلق پہ ہیں پھیرتے چھری
پھیرو چھری پہ مرغِ سحر بولتے نہیں
اس رخ کے سامنے نہ چراغ ان کا جل سکا
خجلت کے مارے شمس و قمر بولتے نہیں
آ کر خوشی میں گاتے ہیں اس طرح بد گلو
خوش ہو کے جس طرح کبھی خر بولتے نہیں
نرگس بتا رہی ہے اشاروں سے یہ اصول
یاں دیکھتے ہیں اہلِ نظر بولتے نہیں
شاعر وہ ہیں جو خامۂ شہباز کی طرح
اشعار لکھتے جاتے ہیں پر بولتے نہیں
سید محمد عبدالغفور شہباز
No comments:
Post a Comment