مانا کہ بہت روح کے آزار رہیں گے
ہم تیرے مگر پھر بھی طلبگار رہیں گے
اے تشنگئ شوق!!ٓ بتا ہم تری خاطر
کب تک یونہی رسوا سرِ بازار رہیں گے
جل جائیں گے تپتے ہوئے صحرا میں مگر ہم
اوروں کے لیے سایۂ دیوار رہیں گے
کب تک تِری زلفیں ہمیں زنجیر کریں گی
کب تک تِری زلفوں کے گرفتار رہیں گے
ناقابلِ تسخیر ارادے ہیں ہمارے
ہم عزم کی اک آہنی دیوار رہیں گے
لیکن ہمیں دنیا نظر انداز کرے گی
ہر چند کہ پیشِ نگہِ یار رہیں گے
گُل ہونا چراغوں کا مقدر ہے شبِ وصل
کب تک ی حریفِ لب و رخسار رہیں گے
باسط! مِرے افکار و خیلات ہمیشہ
شرمندۂ پیرایۂ اظہار رہیں گے
باسط عظیم
No comments:
Post a Comment