Thursday, 18 December 2025

مسکراتے ہوئے چہرے سے وہ منظر نکلا

 مسکراتے ہوئے چہرے سے وہ منظر نکلا

جیب جب اس کی ٹٹولی میں نے خنجر نکلا

چین سے قبر میں بھی رہنے نہیں دیتا ہے

اور کوئی نہیں وہ میرا مجاور نکلا

بانٹ دیتا ہے وہ جھولی میں بھری سب خوشیاں

ہم نے سمجھا جسے قطرہ وہ سمندر نکلا

اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے دنیا کے غم

دل میری ماں کا سمندر سے بھی بڑھ کر نکلا

آج آشرم میں پٹک آیا وہ بوڑھی ماں کو

موم ہم جس کو سمجھتے رہے پتھر نکلا

پڑ گئے پیچھے مرے آج زمانے والے

جب میں نفرت بھری دیوار گرا کر نکلا

وقت کٹتا نہیں اب ان کے بنا یاروں اب

دس مہینے تو گئے اب یہ نومبر نکلا

اس کو پوجا میں نے بھگوان سمجھ کر اندوری

آزمایا تو فقط راہ کا پتھر نکلا


مکیش اندوری

No comments:

Post a Comment