Sunday, 14 December 2025

کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا

 کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا

تم ضد پہ اڑے تم شک میں پڑے تم خود ہی کہو بتلائیں کیا

کوئی کرب نہیں کوئی درد نہیں چہرہ بھی ہمارا زرد نہیں

جب دل میں نہ اٹھے ٹیس کوئی پھر سچا شعر سنائیں کیا

ہم دل کو کیا ناشاد کریں کیا وقت اپنا برباد کریں

بے وجہ تمہیں کیا یاد کریں آنکھوں کو خون رلائیں کیا

اب ساتھ جو تیرا چھوٹ گیا اک خواب تھا سو وہ ٹوٹ گیا

کیا رہ رہ اس کو یاد کریں اور رو رو کر پچھتائیں کیا

جب امن و سکوں ہے بستی میں کوئی کھوٹ نہیں ہے مستی میں

ویرانی یہ کسی چاروں طرف کرتا ہے یہ سائیں سائیں کیا


کلیم قیصر بلرامپوری

No comments:

Post a Comment