ہم نے بنا کے عشق کا معیار رکھ دیا
دل کو حضورِ سنگِ درِ یار رکھ دیا
جب بھی سنی ہے اس سے ملاقات کی خبر
ہم نے بھی اپنے ہاتھ سے اخبار رکھ دیا
تقسیمِ جائیداد کی ایسی ملی خوشی
اس نے بھُلا کے باپ کا کردار رکھ دیا
یوں بھی لیا ہے دست تراشی کا انتقام
اک دم جلے نے توڑ کے مینار رکھ دیا
اس رہگزر میں اب کوئی ٹھوکر نہ کھائے گا
ہم نے دِیا جلا کے سرِ دار رکھ دیا
نور امروہوی
No comments:
Post a Comment