Friday, 26 December 2025

ہم نے بنا کے عشق کا معیار رکھ دیا

 ہم نے بنا کے عشق کا معیار رکھ دیا

دل کو حضورِ سنگِ درِ یار رکھ دیا

جب بھی سنی ہے اس سے ملاقات کی خبر

ہم نے بھی اپنے ہاتھ سے اخبار رکھ دیا

تقسیمِ جائیداد کی ایسی ملی خوشی

اس نے بھُلا کے باپ کا کردار رکھ دیا

یوں بھی لیا ہے دست تراشی کا انتقام

اک دم جلے نے توڑ کے مینار رکھ دیا

اس رہگزر میں اب کوئی ٹھوکر نہ کھائے گا

ہم نے دِیا جلا کے سرِ دار رکھ دیا


نور امروہوی

No comments:

Post a Comment