زندگی اپنی تو بس ایک بلا ہو جیسے
گویا ہر سانس سزاوار سزا ہو جیسے
ان کے ہر لفظ کا سنگین نکیلا پتھر
شیشۂ دل کو مِرے توڑ گیا ہو جیسے
روشنی گھر کے دِیے کی ہوئی میلی میلی
اس کی رگ رگ کا لہو سوکھ رہا ہو جیسے
منہدم کرنے کو پھر صبر و سکوں کی دیوار
دل کی دہلیز پہ طوفان کھڑا ہو جیسے
ہو کے مایوس مِری روح کا گھائل پنچھی
غم کے ساگر میں کہیں ڈوب گیا ہو جیسے
اب نشاں کچھ بھی نہیں دل میں سکوں کا باقی
اس میں صدیوں سے ولی شور بپا ہو جیسے
ولی مدنی
No comments:
Post a Comment