Wednesday, 24 December 2025

زندگی اپنی تو بس ایک بلا ہو جیسے

 زندگی اپنی تو بس ایک بلا ہو جیسے

گویا ہر سانس سزاوار سزا ہو جیسے

ان کے ہر لفظ کا سنگین نکیلا پتھر

شیشۂ دل کو مِرے توڑ گیا ہو جیسے

روشنی گھر کے دِیے کی ہوئی میلی میلی

اس کی رگ رگ کا لہو سوکھ رہا ہو جیسے

منہدم کرنے کو پھر صبر و سکوں کی دیوار

دل کی دہلیز پہ طوفان کھڑا ہو جیسے

ہو کے مایوس مِری روح کا گھائل پنچھی

غم کے ساگر میں کہیں ڈوب گیا ہو جیسے

اب نشاں کچھ بھی نہیں دل میں سکوں کا باقی

اس میں صدیوں سے ولی شور بپا ہو جیسے


ولی مدنی

No comments:

Post a Comment