سر جھکاؤں کس طرح دستار ہے اپنی جگہ
بات ہے کردار کی کردار ہے اپنی جگہ
آہ مفلس کی یقیناً رنگ لائے گی ضرور
ظلم پر آمادہ گو زردار ہے اپنی جگہ
بھائی بٹوارہ یہ ہے گھر بار کا، دل کا نہیں
گرچہ آنگن بیچ کی دیوار ہے اپنی جگہ
ایک بیوہ جیسے گُل مُرجھائے کوئی دفعتاً
پھولتا پھلتا مگر گلزار ہے اپنی جگہ
اس نے کیا سوچا کسی معصوم کا دل توڑ کر
پیار سے محروم کیوں حقدار ہے اپنی جگہ
ہر کسی مسلک میں ملتے ہیں ہزاروں تاجدار
دونوں عالم کا مگر سردارؐ ہے اپنی جگہ
ہے نظامِ زر وہی اور اس کے ہتھکنڈے وہی
ظُلم سہنے کے لیے نادار ہے اپنی جگہ
فتح لیتی ہے قدم اس کے سر میدان جنگ
سر سے باندھے جو کفن تیار ہے اپنی جگہ
قافلے والوں کو نیر خوف لُٹنے کا ہو کیوں
قافلہ سالار جب بیدار ہے اپنی جگہ
نیر گنگوہی
سعید احمد قریشی
No comments:
Post a Comment