یوں تو دنیا میں بجا کرتی ہے شہنائی بھی
میری قسمت میں اداسی بھی ہے تنہائی بھی
سسکیاں لیتا ہوا دن ابھی گزرا بھی نہ تھا
آ گئی ناگ سی ڈسنے شبِ تنہائی بھی
شبِ وعدہ میں نہیں اب کوئی لذت باقی
آ گیا راس مجھے اب غمِ تنہائی بھی
مشورہ تم کو بھی دیتے ہیں لبوں سے اپنے
جام کے ساتھ لگا لو خُمِ تنہائی بھی
میری دنیا میں اجالوں کا گزر کیسے ہو
ہر طرف گھور اندھیرا سا ہے، تنہائی بھی
ثریا رحمٰن
No comments:
Post a Comment