Saturday, 20 December 2025

عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے

 عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے

گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ادھر ادھر والے

نواح جسم نہیں گرچہ ریگزار سے کم

یہاں بھی خطے کئی ہیں ہرے شجر والے

اگرچہ شور بہت ہے در دعا پہ مگر

زبانیں بند کیے بیٹھے ہیں اثر والے

ہے راہ جاں یوں ہی سنسان ایک مدت سے

نہ گرد اڑی نہ دکھائی دئیے سفر والے

بغیر آنکھ کے چہروں کا اب چلن ہے یہاں

وہ دن گئے کہ ہوا کرتے تھے نظر والے

ابھی میں شہر کو صحرا بنائے دیتا ہوں

کہ میرے ہاتھ بھی کچھ کم نہیں ہنر والے

سمٹ کے رہ گئے اب چند ساعتوں میں حسن

یہی تھے کام کسی وقت عمر بھر والے


حسن عزیز

No comments:

Post a Comment