ہنسے بھی جاتے ہیں غم بھی اٹھائے جاتے ہیں
سند ہم اپنی محبت کی لائے جاتے ہیں
ہم ان کو درد دل اپنا سنائے جاتے ہیں
وہ سنتے جاتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں
کسی کی بزم میں جب ہم بٹھائے جاتے ہیں
تو بیٹھتے ہی وہاں سے اٹھائے جاتے ہیں
یہ ہم نے کب کہا؛ وعدہ ہے آپ کا جھوٹا
یہ کیوں قسم پہ قسم آپ کھائے جاتے ہیں
وہیں، جہاں سے نکالا ذلیل کر کے ہمیں
اسی بہشت میں پھر ہم بلائے جاتے ہیں
ہمارے شوق کی تکمیل ہو چلی شاید
کہ اس کی بزم میں ہم بے بلائے جاتے ہیں
کسی کے در پہ نہیں رہگزر پہ ہیں بیٹھے
مگر یہاں سے بھی بیدل اٹھائے جاتے ہیں
بیدل عظیم آبادی
عبدالمنان بیدل
No comments:
Post a Comment