Saturday, 27 December 2025

ہنسے بھی جاتے ہیں غم بھی اٹھائے جاتے ہیں

ہنسے بھی جاتے ہیں غم بھی اٹھائے جاتے ہیں

سند ہم اپنی محبت کی لائے جاتے ہیں

ہم ان کو درد دل اپنا سنائے جاتے ہیں

وہ سنتے جاتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں

کسی کی بزم میں جب ہم بٹھائے جاتے ہیں

تو بیٹھتے ہی وہاں سے اٹھائے جاتے ہیں

یہ ہم نے کب کہا؛ وعدہ ہے آپ کا جھوٹا

یہ کیوں قسم پہ قسم آپ کھائے جاتے ہیں

وہیں، جہاں سے نکالا ذلیل کر کے ہمیں

اسی بہشت میں پھر ہم بلائے جاتے ہیں

ہمارے شوق کی تکمیل ہو چلی شاید

کہ اس کی بزم میں ہم بے بلائے جاتے ہیں

کسی کے در پہ نہیں رہگزر پہ ہیں بیٹھے

مگر یہاں سے بھی بیدل اٹھائے جاتے ہیں


بیدل عظیم آبادی

عبدالمنان بیدل 

No comments:

Post a Comment