Monday, 29 December 2025

رات کا وقت ہے آہوں کا دھواں ہو جیسے

 آخری خط


رات کا وقت ہے آہوں کا دھواں ہو جیسے

چاند خاموش ہے روٹھی ہوئی قسمت کی طرح

سرمئی طاق میں مٹی کا دیا جلتا ہے

کروٹیں لیتی رہی اونگھتے کمرے کی فضا

کروٹیں لیتی رہی اونگھتے کمرے کی فضا

اور میں رات کے روتے ہوئے سناٹے میں

پڑھ رہا ہوں کہ جست عہدِ وفا کہتے ہیں

ساتھ دیتا نہیں تاریکی میں سائے کی طرح

شدت کرب میں ڈوبے ہوئے لمحوں کی گھٹن

لوٹ آئی ہے جو ماضی کا جھروکا ٹوٹا

سامنے بند لفافے میں تمہارے خط ہیں

اور میں سوچ رہا ہوں کہ تمہیں کیا لکھوں


علی اصغر

No comments:

Post a Comment