دلوں سے جب دور ہو گی نفرت نظر نظر میں خوشی ملے گی
جہاں سے تاریکیاں مٹیں گی قدم قدم روشنی ملے گی
جہاں ہیں طوفاں کے تیز دھارے چھپا ہوا ہے وہیں پہ ساحل
فنا کی پر خوف وادیوں میں تمہیں نئی زندگی ملے گی
دلوں میں جن کے ہے عزم محکم انہیں ملیں گے نشان منزل
بھٹک رہے ہیں جو ظلمتوں میں انہیں نہ منزل کبھی ملے گی
ابھی تو ارمان جستجو ہے خوشی کی بے سود آرزو ہے
پہنچ کے منزل پہ کیا خبر ہے ملے گا غم یا خوشی ملے گی
جو خود غرض ہیں انہیں کو انجم زمانہ کہتا ہے اپنا رہبر
کہ جن کے نقش قدم پہ چل کر فقط تمہیں گمرہی ملے گی
انجم دتیاوی
حبیب احمد
No comments:
Post a Comment