Tuesday, 30 December 2025

دلوں سے جب دور ہو گی نفرت نظر نظر میں خوشی ملے گی

 دلوں سے جب دور ہو گی نفرت نظر نظر میں خوشی ملے گی

جہاں سے تاریکیاں مٹیں گی قدم قدم روشنی ملے گی

جہاں ہیں طوفاں کے تیز دھارے چھپا ہوا ہے وہیں پہ ساحل

فنا کی پر خوف وادیوں میں تمہیں نئی زندگی ملے گی

دلوں میں جن کے ہے عزم محکم انہیں ملیں گے نشان منزل

بھٹک رہے ہیں جو ظلمتوں میں انہیں نہ منزل کبھی ملے گی

ابھی تو ارمان جستجو ہے خوشی کی بے سود آرزو ہے

پہنچ کے منزل پہ کیا خبر ہے ملے گا غم یا خوشی ملے گی

جو خود غرض ہیں انہیں کو انجم زمانہ کہتا ہے اپنا رہبر

کہ جن کے نقش قدم پہ چل کر فقط تمہیں گمرہی ملے گی


انجم دتیاوی

حبیب احمد 

No comments:

Post a Comment