چمن تو کیا ہے ادھر سایۂ شجر بھی نہیں
یہ کیا سفر ہے کہ اب کوئی ہمسفر بھی نہیں
اگر یہ ترکِ تعلق نہیں تو پھر کیا ہے؟
کہ اس کو آج مِرے حال کی خبر بھی نہیں
ابھی تلک نہیں آیا کوئی پیام اس کا
اور آج اس کی نظر سے ملی نظر بھی نہیں
یہ معجزہ ہے؛ وہ اڑنے لگا فضاؤں میں
پرندہ جس کے مقدر میں بال و پر بھی نہیں
یہ مُردہ لوگ ہمیشہ کی موت چاہتے ہیں
ہماری بات میں لیکن کوئی اثر بھی نہیں
کاظم حسین کاظمی
No comments:
Post a Comment