Friday, 26 December 2025

بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں

 بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں

قدم قدم پہ ہی فکر معاش ہے میں ہوں

زمانے بھر میں تو یہ راز فاش ہے میں ہوں

مگر مجھے تو مری ہی تلاش ہے میں ہوں

ہر ایک ضرب نئے تجربے اکیرے ہے

حیات ہے کہ کوئی سنگ تراش ہے میں ہوں

لگیں گی بولیاں جنت کی اب سر بازار

بکے گی خلد بریں اف وناش ہے میں ہوں

جو وقت ماضی میں گزرا ہے کاش رک جاتا

لبوں پہ آج فقط لفظ کاش ہے میں ہوں

ہر اک قدم پہ نئی حسرتیں پنپتی ہیں

نہ جانے کیسا یہ اک موہ پاش ہے میں ہوں

کیوں لمحہ لمحہ ہی بڑھتی ہی جا رہی ہے شہاب

یہ گزرے وقت کی کیسی خراش ہے میں ہوں


اعجازالحق شہاب

No comments:

Post a Comment