کردار و عمل جب سے ہیں میزان کی زد میں
ہر شخص نظر آتا ہے بحران کی زد میں
سر جوڑ کے بیٹھو، کوئی تدبیر تو سوچو
کیوں زیست ہے بکھرے ہوئے اوسان کی زد میں
مخمل کے طرح نرم، گلابوں سے بھی نازک
دوشیزۂ شب ہے نئے عنوان کی زد میں
جذبات کی بپھری ہوئی موجوں سے لپٹ کر
آیا ہے سفینہ میرا طوفان کی زد میں
ممکن نہیں آزادئ انساں کی تحفظ
گلشن کا اگر نظم ہوں بہتان کی زد میں
آزاد جو ہوں جرأتِ پرواز کے بازو
ہر شے ہے یہاں آج بھی انسان کی زد میں
احساس کی پلکوں پہ سحر خوابِ پریشاں
شرمندۂ تعبیر ہے، ہیجان کی زد میں
نفیس احمد سحر
No comments:
Post a Comment