Thursday, 25 December 2025

ہوا چلے تو ادھر سے ادھر دھواں جائے

 ہوا چلے تو ادھر سے ادھر دھواں جائے

گھٹن جو شہر میں ہے شہر سے کہاں جائے

رہیں گی دل کی سرائے میں حسرتیں کب تک

یہاں سے کوچ کرے اب یہ کارواں جائے

ہمارے نقش قدم راہ کے چراغ بنیں

ہمارے پاؤں تلے سے نہ کہکشاں جائے

سجائیں میرے لیے غیر کیوں درِ مقتل

مِری طرف سے مِرا کوئی مہرباں جائے

لکھا ہے جس نے مجھے اب کبھی نہ خط لکھنا

وہ آئے اور قلم کر کے انگلیاں جائے

صبا نے باندھ لیا خوشبوؤں کو لفظوں میں

خبر اڑے تو نجانے کہاں کہاں جائے

اندھیرے کیا اسے روکیں گے وہ تو ہے مہتاب

اجالے اس کے جلو میں رہیں جہاں جائے


مہتاب عالم

No comments:

Post a Comment