ہوا چلے تو ادھر سے ادھر دھواں جائے
گھٹن جو شہر میں ہے شہر سے کہاں جائے
رہیں گی دل کی سرائے میں حسرتیں کب تک
یہاں سے کوچ کرے اب یہ کارواں جائے
ہمارے نقش قدم راہ کے چراغ بنیں
ہمارے پاؤں تلے سے نہ کہکشاں جائے
سجائیں میرے لیے غیر کیوں درِ مقتل
مِری طرف سے مِرا کوئی مہرباں جائے
لکھا ہے جس نے مجھے اب کبھی نہ خط لکھنا
وہ آئے اور قلم کر کے انگلیاں جائے
صبا نے باندھ لیا خوشبوؤں کو لفظوں میں
خبر اڑے تو نجانے کہاں کہاں جائے
اندھیرے کیا اسے روکیں گے وہ تو ہے مہتاب
اجالے اس کے جلو میں رہیں جہاں جائے
مہتاب عالم
No comments:
Post a Comment