Thursday, 18 December 2025

نغمۂ غم کو تم اے غنچہ و گل کیا سمجھو

 نغمۂ غم کو تم اے غنچہ و گل کیا سمجھو

درد ہو دل میں تو بلبل کا ترانہ سمجھو

میری فریاد کو تم شکوۂ بے جا سمجھو

کیا قیامت ہے کہ ہر بات کو الٹا سمجھو

یہ بھی کیا کھیل ہے بازیچۂ دنیا میں کہ تم

میرے اظہارِ محبت کو تماشا سمجھو

ستم ان کا ہے کرم اور مرا دردِ سکوں

ایک ہی بات ہے وہ بھی اگر الٹا سمجھو

جو کبھی باعثِ تفریح تھا آج اس دل کو

ایک ٹوٹا ہوا مٹی کا کھلونا سمجھو

اسی امید پہ جیتے ہیں تمہارے عاشق

شاید آ جائے کوئی وقت کہ اپنا سمجھو

میرے نغمات کو جذبات کا عکس اور مجھے

ترجمانِ دلِ اربابِ تمنا سمجھو

یہ غزل غمکدۂ دہر کی تصویر بھی ہے

یا مِری حالتِ مضبور کا نقشہ سمجھو


سید حکیم احمد نقوی

No comments:

Post a Comment