اب کوئی توقع کسی عنواں نہیں رکھتے
ہم اہل طلب ہو کے بھی داماں نہیں رکھتے
کچھ اور نکھر آئے تری یاد کے پہلو
اب دل کو اداس آنکھ کو گریاں نہیں رکھتے
دیکھیں تو ذرا میرے در و بام تمنا
وہ لوگ کہ جو شوق چراغاں نہیں رکھتے
اک تیرے ہی جلوے سے نظر کو نہیں فرصت
ہم آرزوئے شہر نگاراں نہیں رکھتے
ڈھونڈیں گے تجھے سرحد کونین سے آگے
پرواز نظر تو حد امکاں نہیں رکھتے
منزہ انور گوئندی
No comments:
Post a Comment