Saturday, 27 December 2025

چھوڑے ہوئے زمانہ ہوا اپنا گھر مجھے

 چھوڑے ہوئے زمانہ ہوا اپنا گھر مجھے

اب تو وبالِ جاں ہے مسلسل سفر مجھے

کرتے نہیں ہیں کھل کے کبھی دل کی بات وہ

ملتے تو ہیں وہ روزِ رہگزر مجھے

ہر ایک چیز گھر کی تھی کل کس قدر عزیز

اب اجنبی سے لگتے ہیں کیوں بام و در مجھے

شاید مِرا جواب خلافِ امید ہے

حیرت سے تک رہا ہے جو نامہ بر مجھے

آخر کو درمیانِ سفر کھل گیا بھرم

سمجھا تھا راہبر نے بہت بے خبر مجھے

شاید میں اپنے دل کی طرف کر سکوں نگاہ

آرام بھی تو لینے دے دردِ جگر مجھے

صالح! یہ زہر کس نے فضا میں سمو دیا

ڈسنے لگے ہیں میرے ہی دیوار و در مجھے


صالح اچھا

No comments:

Post a Comment