مکیں کے ساتھ مکاں سوگوار ہے بھائی
نواحِ جاں میں عجب انتشار ہے بھائی
یقیں کی موج سے نکلوں تو کس طرح نکلوں
کسی صدا کا مجھے انتظار ہے بھائی
میں اپنے آپ کا شاہد ہوں لوگ کہتے ہیں
کہ سب کو مجھ پہ یہاں اعتبار ہے بھائی
ابھی بھی موجِ طلب سر نگوں نہیں یعنی
لہو میں پچھلے نشے کا خمار ہے بھائی
مِرے لیے وہ اذیت کا بوجھ ڈھوتا ہے
اسے بھی میری طرح خود سے پیار ہے بھائی
خورشید سحر
No comments:
Post a Comment