Monday, 22 December 2025

قدموں کے سلسلے وہی چکر کے خط و خال

 قدموں کے سلسلے وہی چکر کے خط و خال

آوارگی میں کیا کسی محور کے خط و خال

آئینہ وار دل نے سمیٹا ہے ایک عکس

زخموں میں دیکھ کر کسی نشتر کے خط و خال

ہر روز کی یہ زُود فراموشیاں بھی دیکھ

سورج ہی چاٹ لے مہ و اختر کے خط و خال

اوندھی ہتھیلیوں سا بھرم بھی نہ رکھ سکے

سیدھی ہتھیلیوں پہ مقدر کے خط و خال

ہم ہی اگر نہ پوچھیں تو آئینے کیوں کہیں

"شبدوں میں اب کہاں کسی اکھشر کے خط و خال"

ہے رازؔ کوئی راز، نہ حیرتؔ کوئی سوال

دونوں ہیں اک بساطِ منورؔ کے خط و خال

راہی! ملامتوں کا محلِ نظر ہوئے

بین السطور حرفِ مکرر کے خط و خال


رام پرکاش راہی 

No comments:

Post a Comment