قدموں کے سلسلے وہی چکر کے خط و خال
آوارگی میں کیا کسی محور کے خط و خال
آئینہ وار دل نے سمیٹا ہے ایک عکس
زخموں میں دیکھ کر کسی نشتر کے خط و خال
ہر روز کی یہ زُود فراموشیاں بھی دیکھ
سورج ہی چاٹ لے مہ و اختر کے خط و خال
اوندھی ہتھیلیوں سا بھرم بھی نہ رکھ سکے
سیدھی ہتھیلیوں پہ مقدر کے خط و خال
ہم ہی اگر نہ پوچھیں تو آئینے کیوں کہیں
"شبدوں میں اب کہاں کسی اکھشر کے خط و خال"
ہے رازؔ کوئی راز، نہ حیرتؔ کوئی سوال
دونوں ہیں اک بساطِ منورؔ کے خط و خال
راہی! ملامتوں کا محلِ نظر ہوئے
بین السطور حرفِ مکرر کے خط و خال
رام پرکاش راہی
No comments:
Post a Comment