خوبیاں کردار کی بتلائیں کیوں
جو نہیں سمجھے اسے سمجھائیں کیوں
اک ادائے خاص سے جیتے ہیں ہم
خواہشوں سے سر اپنا ٹکرائیں کیوں
جس گلی میں ایک بھی اپنا ناں ہو
اس گلی میں ٹھوکریں ہم کھائیں کیوں
ہاتھ پھیلائیں مگر پھیلائیں کیوں
در پہ امریکہ کہ آخر جائیں کیوں
چوستے ہیں جو غریبوں کا لہو
وہ خدا کے قہر سے بچ جائیں کیوں
چاند تاروں سے آگے بھی ہیں جہاں
جانتے ہیں ہم مگر بتلائیں کیوں
دل، گولی، بارود، ایٹم بھی ہے
پھول کلیوں سے دل بہلائیں کیوں
حرا حمید
No comments:
Post a Comment