Wednesday, 31 December 2025

تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک

 تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک

ایسا چھلکا زخم کہ سارا پلکوں سے بہہ گیا نمک

حلوے مانڈے سب میٹھے تھے کھا پی کر وہ بھول گئے

تلخ عناصر کا سنگم تھا رگ رگ میں رہ گیا نمک

زخموں کے گل کیا دھوئے گی رت رسیا برسات جہاں

ہر موسم ہر آن بکھیرے چلتی پھرتی ہوا نمک

انگڑائی کی محرابوں میں رنگ دھنک وہ کیوں نہ بھریں

جن کی ہر ہر بات رسیلی جن کی ہر ہر ادا نمک

لیکھ لفافے سے باہر تھا سرخی تھی مضمون بکف

مسک گئیں میٹھی مسکانیں ہونٹ کھلے اور گرا نمک

جانے کیا کیا عکس اگلتے کھل کر دھندلے آئینے

اٹے ہوئے زخموں پر راہیؔ کون چھڑکتا کھرا نمک


رام پرکاش راہی

No comments:

Post a Comment