Thursday, 11 December 2025

مزاج زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی

 مزاجِ زندگی میں قہر بھی ہے مہربانی بھی

اسی اڑتے ہوئے بادل میں بجلی بھی ہے پانی بھی

جمالِ موت پر قدرت نے پردے ڈال رکھے ہیں

وگر نہ بار ہو جاتا خیالِ زندگانی بھی

سماعت خود تصور کے جھروکے کھول دیتی ہے

بڑی نظارہ پرور ہے صدائے لن ترانی بھی

سکوتِ نیم شب میں ڈوب کر دُہرا رہا ہوں میں

بہت دلچسپ ہے ائے زندگی تیری کہانی بھی

محبت کی حقیقت کا تو پیمانہ نہیں لیکن

محبت کے تقاضے ہیں زمانی بھی مکانی بھی

ہر اک ذرہ میں اک دنیا ہر اک دنیا میں سو عالم

وطن اندر وطن نکلی مِری بے خانمانی بھی

کنایے میں بہت کچھ کام دئیے جاتے ہیں اے کوثر

صریرِ خامہ میں ہوتا ہے پیغامِ زبانی بھی


رشید کوثر فاروقی

No comments:

Post a Comment