پتے کی طرح ٹوٹ کے نظروں سے گرا ہوں
ہر رنگ سے میں برسر پیکار رہا ہوں
مجھ کو ورق دفتر فرسودہ نہ سمجھو
ہر دور کے دیوان کا میں نغمہ سرا ہوں
صدیوں سے مسلط تھا وہ اک لمحۂ جاوید
تنہائیٔ شب میں جو کبھی تجھ سے ملا ہوں
یہ بھی تو مِرا شیوۂ عیسیٰ نفسی ہے
ہر جلتے بدن کے لیے میں ٹھنڈی ہوا ہوں
ہر سادہ ورق پیکر فریاد بنا ہے
دیوان کے دیوان کو میں چاٹ چکا ہوں
اک دن تو اجالوں سے گلے مل کے رہوں گا
صدیوں سے اندھیروں کے ہم آغوش رہا ہوں
خورشید کے صہبا میں حیات اپنی ڈبو کر
میں گردشِ ایام سے بھی کھیل رہا ہوں
حیات مدراسی
No comments:
Post a Comment