Thursday, 11 December 2025

پتے کی طرح ٹوٹ کے نظروں سے گرا ہوں

 پتے کی طرح ٹوٹ کے نظروں سے گرا ہوں

ہر رنگ سے میں برسر پیکار رہا ہوں

مجھ کو ورق دفتر فرسودہ نہ سمجھو

ہر دور کے دیوان کا میں نغمہ سرا ہوں

صدیوں سے مسلط تھا وہ اک لمحۂ جاوید

تنہائیٔ شب میں جو کبھی تجھ سے ملا ہوں

یہ بھی تو مِرا شیوۂ عیسیٰ نفسی ہے

ہر جلتے بدن کے لیے میں ٹھنڈی ہوا ہوں

ہر سادہ ورق پیکر فریاد بنا ہے

دیوان کے دیوان کو میں چاٹ چکا ہوں

اک دن تو اجالوں سے گلے مل کے رہوں گا

صدیوں سے اندھیروں کے ہم آغوش رہا ہوں

خورشید کے صہبا میں حیات اپنی ڈبو کر

میں گردشِ ایام سے بھی کھیل رہا ہوں


حیات مدراسی

No comments:

Post a Comment