Thursday, 11 December 2025

دل حبیبوں نے دکھایا ہے کوئی بات نہیں

 دل حبیبوں نے دُکھایا ہے کوئی بات نہیں

فرض تھا ان کا نبھایا ہے کوئی بات نہیں

میرے مونس میرے یاروں نے دوا کے بدلے

زہر گر مجھ کو پلایا ہے کوئی بات نہیں

سادگی دل کی تو دیکھو کہ فریبِ اُلفت

جانتے بُوجھتے کھایا ہے کوئی بات نہیں

رات آتی ہے تو ہو جاتا ہے سایہ بھی جُدا

آج اپنا بھی پرایا ہے کوئی بات نہیں

شکوہ جائز تھا اگر غیر ستاتے مجھ کو

مجھ کو اپنوں نے ستایا ہے کوئی بات نہیں

دل نے سب کے لیے کیا کیا نہ اُٹھا رکھا ہے

کام میرے ہی نہ آیا ہے کوئی بات نہیں

شب کی تاریکیاں مٹ جائیں، اُجالا پھیلے

میں نے گھر اپنا جلایا ہے کوئی بات نہیں

پیچھے پیچھے کوئی خنجر سا لیے آتا ہے

یہ تو خُود ہی مِرا سایہ ہے کوئی بات نہیں

مجھ کو کچھ ان سے شکایت ہے نہ شکوہ حیرت

جان کر اپنا رُلایا ہے کوئی بات نہیں


حیرت فرخ آبادی

جیوتی پرساد مشرا

No comments:

Post a Comment