سکون ہے دن کو میسر نہ شب کو سونے میں
تمام عمر کٹی دل کے داغ دھونے میں
یہ جانتی ہیں بہت دن سے انگلیاں میری
ہے کس کے لمس کی خوشبو مِرے بچھونے میں
میں آدھی رات کو بستر پہ چونک اٹھتا ہوں
سسک رہا ہوں کوئی جیسے گھر کے کونے میں
اے ناخدا! یہ ابھر کر ہوا مجھے معلوم
تھا کس کا ہاتھ مِری کشتیاں ڈبونے میں
یہ اور بات کہ اٹھتی نہییں نظر اپنی
کسے ہے شک بھلا تیرے حسین ہونے میں
فرحانہ، گوہر و نوشاد، مشتری بیگم
میں اشک کھویا رہا کن حسیں کھلونے میں
رضا اشک
No comments:
Post a Comment