Thursday, 11 December 2025

سکون ہے دن کو میسر نہ شب کو سونے میں

 سکون ہے دن کو میسر نہ شب کو سونے میں

تمام عمر کٹی دل کے داغ دھونے میں

یہ جانتی ہیں بہت دن سے انگلیاں میری

ہے کس کے لمس کی خوشبو مِرے بچھونے میں

میں آدھی رات کو بستر پہ چونک اٹھتا ہوں

سسک رہا ہوں کوئی جیسے گھر کے کونے میں

اے ناخدا! یہ ابھر کر ہوا مجھے معلوم

تھا کس کا ہاتھ مِری کشتیاں ڈبونے میں

یہ اور بات کہ اٹھتی نہییں نظر اپنی

کسے ہے شک بھلا تیرے حسین ہونے میں

فرحانہ، گوہر و نوشاد، مشتری بیگم

میں اشک کھویا رہا کن حسیں کھلونے میں


رضا اشک

No comments:

Post a Comment