کیا بتلاؤں کیسے دن میں کاٹ رہا ہوں
موتی ہوں اور رستے میں بیکار پڑا ہوں
لمبی لمبی کاروں والوں سے اچھا ہوں
روکھی سوکھی جو ملتی ہے کھا لیتا ہوں
بادل پربت دریا چشمے جنگل صحرا
کیوں بھاتے ہیں میں ان سب کا کیا لگتا ہوں
آگ اور پانی میں کہتے ہیں بیر بڑا ہے
لیکن میں تو اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں
اتنی نفرت یارو مجھ سے کیوں کرتے ہو
میں بھی گلشن کا اک گل ہوں تم جیسا ہوں
میرے چاہنے والوں کا بھی اک حلقہ ہے
میں بھی گلزاروں کی وادی کا جھرنا ہوں
میرے حال سے دنیا کا اندازہ کر لو
میں پھلدار شجر کا اک پیلا پتا ہوں
دھیان کو تنہائی کے گھر کا پیڑ سمجھئے
میں بھی اس کے سائے میں برسوں بیٹھا ہوں
جانے کس پل کی خوشبو ہے میرے آگے
جانے کس دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہوں
بس کے پہیے خاک اڑا جاتے ہیں مجھ پر
وہ کیا جانیں کون ہوں اور کس کا چہرہ ہوں
اتا پتا کیا پوچھ رہے ہو میرا لوگو
رامپوری شاعر ہوں اور غزلیں کہتا ہوں
خلیل رامپوری
No comments:
Post a Comment