Monday, 29 December 2025

کیا بتلاؤں کیسے دن میں کاٹ رہا ہوں

 کیا بتلاؤں کیسے دن میں کاٹ رہا ہوں

موتی ہوں اور رستے میں بیکار پڑا ہوں

لمبی لمبی کاروں والوں سے اچھا ہوں

روکھی سوکھی جو ملتی ہے کھا لیتا ہوں

بادل پربت دریا چشمے جنگل صحرا

کیوں بھاتے ہیں میں ان سب کا کیا لگتا ہوں

آگ اور پانی میں کہتے ہیں بیر بڑا ہے

لیکن میں تو اس سے مل کر خوش ہوتا ہوں

اتنی نفرت یارو مجھ سے کیوں کرتے ہو

میں بھی گلشن کا اک گل ہوں تم جیسا ہوں

میرے چاہنے والوں کا بھی اک حلقہ ہے

میں بھی گلزاروں کی وادی کا جھرنا ہوں

میرے حال سے دنیا کا اندازہ کر لو

میں پھلدار شجر کا اک پیلا پتا ہوں

دھیان کو تنہائی کے گھر کا پیڑ سمجھئے

میں بھی اس کے سائے میں برسوں بیٹھا ہوں

جانے کس پل کی خوشبو ہے میرے آگے

جانے کس دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہوں

بس کے پہیے خاک اڑا جاتے ہیں مجھ پر

وہ کیا جانیں کون ہوں اور کس کا چہرہ ہوں

اتا پتا کیا پوچھ رہے ہو میرا لوگو

رامپوری شاعر ہوں اور غزلیں کہتا ہوں


خلیل رامپوری

No comments:

Post a Comment