ہر درد وہ دیتے ہیں ہر ظلم وہ ڈھاتے ہیں
پھر بھی رخِ زیبا سے دیوانہ بناتے ہیں
صد شکر کہ زنداں میں آثارِ حیات ابھرے
کس شور سے دیوانے زنجیر ہلاتے ہیں
خنجر بھی نہیں اٹھتا یہ اور ستم دیکھو
ہم تو رہِ مقتل میں خود شوق سے جاتے ہیں
ہر روز وہی قسمیں، ہر روز وہی وعدے
مت پوچھیے ہم ان سے کس طرح نبھاتے ہیں
آساں تو نہ تھا اے دل! پھولوں پہ بہار آنا
ہم دل کا لہو دے کر گلشن کو سجاتے ہیں
صادقہ فاطمی
No comments:
Post a Comment