Monday, 29 December 2025

زندگی ہے کہ کوئی صحرا ہے

 زندگی ہے کہ کوئی صحرا ہے

روشنی کا نگر اندھیرا ہے

چلتے رہتا ہوں جانے کس جانب

کوئی منزل نہ کچھ بسیرا ہے

دل کی گہرائیوں میں آ جاؤ

زخم دل میرا اور گہرا ہے

تم جو چلتے ہوئے ٹھہرتے ہو

وقت بھی آج ٹھہرا ٹھہرا ہے

غم کی تحریر تم کو کیا معلوم

کاغذ دل تمہارا کورا ہے

پیار ہے مجھ کو اس ستم گر سے

جس کا انداز پیارا پیارا ہے

میری دنیا سنور گئی ہے معین

ان کی زلفوں کو جو سنوارا ہے


معین الدین فیاضی

No comments:

Post a Comment