زندگی ہے کہ کوئی صحرا ہے
روشنی کا نگر اندھیرا ہے
چلتے رہتا ہوں جانے کس جانب
کوئی منزل نہ کچھ بسیرا ہے
دل کی گہرائیوں میں آ جاؤ
زخم دل میرا اور گہرا ہے
تم جو چلتے ہوئے ٹھہرتے ہو
وقت بھی آج ٹھہرا ٹھہرا ہے
غم کی تحریر تم کو کیا معلوم
کاغذ دل تمہارا کورا ہے
پیار ہے مجھ کو اس ستم گر سے
جس کا انداز پیارا پیارا ہے
میری دنیا سنور گئی ہے معین
ان کی زلفوں کو جو سنوارا ہے
معین الدین فیاضی
No comments:
Post a Comment