دیکھ کر مہنگے کھلونے چپ ہے یہ سب جانتا ہے
میرا بچہ میری خاموشی کا مطلب جانتا ہے
میں پریشاں ہوں تو کوئی ضد نہیں کرتا وہ مجھ سے
بات کہنے کا مناسب وقت بھی اب جانتا ہے
کتنا خوش ہے ناؤ سے کاغذ کی یہ ننھا سا بچہ
وسعتِ دریا کہاں یہ تو ابھی اب ٹب جانتا ہے
ایک رنجِ مشترک ہے میرا اور اس چاند کا بھی
دردِ تنہائی کو میں یا رہروِ شب جانتا ہے
ایک ہونے ہی کہاں دیتا ہے یہ سب بھائیوں کو
گاؤں کا مُکھیا بھی یہ نسخہ مجرّب جانتا ہے
کون جانے کل ہوا کر دے اس کے بھی دیوں کو
وہ جو غنچوں کو جلانا اپنا مذہب جانتا ہے
عرفان احمد
No comments:
Post a Comment