Friday, 19 December 2025

دیکھ کر مہنگے کھلونے چپ ہے یہ سب جانتا ہے

 دیکھ کر مہنگے کھلونے چپ ہے یہ سب جانتا ہے

میرا بچہ میری خاموشی کا مطلب جانتا ہے

میں پریشاں ہوں تو کوئی ضد نہیں کرتا وہ مجھ سے

بات کہنے کا مناسب وقت بھی اب جانتا ہے

کتنا خوش ہے ناؤ سے کاغذ کی یہ ننھا سا بچہ

وسعتِ دریا کہاں یہ تو ابھی اب ٹب جانتا ہے

ایک رنجِ مشترک ہے میرا اور اس چاند کا بھی

دردِ تنہائی کو میں یا رہروِ شب جانتا ہے

ایک ہونے ہی کہاں دیتا ہے یہ سب بھائیوں کو

گاؤں کا مُکھیا بھی یہ نسخہ مجرّب جانتا ہے

کون جانے کل ہوا کر دے اس کے بھی دیوں کو

وہ جو غنچوں کو جلانا اپنا مذہب جانتا ہے


عرفان احمد

No comments:

Post a Comment