سنا گئیں تری یادیں کہانیاں کیا کیا
تڑپ اٹھی ہیں نگاہوں میں بجلیاں کیا کیا
بہت قریب سے گزرے تھے زندگی کے کبھی
حسین خوابوں نے بخشے تھے آشیاں کیا کیا
سوال آج بھی کرتی ہے گردش دوراں
حسین لمحوں کی تھیں نشانیاں کیا کیا
کبھی جو ہم کسی درد آشنا کے ساتھ چلے
اٹھیں نہ ہم پہ زمانے کی انگلیاں کیا کیا
قدم بڑھائے جو آرائشِ جہاں کے لیے
چلیں نہ سمتِ مخالف سے آندھیاں کیا کیا
لہو لہان ہے یہ جسم، روح ہے زخمی
ستم ظریفئ قسمت کریں بیاں کیا کیا
عمل پذیر ہیں تنویر کی تباہی پر
امیرِ شہر کی ریشہ دوانیاں کیا کیا
عباس رضا تنویر
No comments:
Post a Comment