Tuesday, 23 December 2025

جھوٹ ہے دل نہ جاں سے اٹھتا ہے

 جھوٹ ہے دل نہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں درمیاں سے اٹھتا ہے

رات بھر دھونکنے پہ مشکل سے

''شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے''

مار لاتا ہے جوتیاں دو چار

''جو تِرے آستاں سے اٹھتا ہے''

ہم ڈنر کھا کے اس طرح اٹھے

''جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے''

جل گیا کون میرے ہنسنے پر

''یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے''

میرا محبوب پانچ من کا ہے

''اور مجھ ناتواں سے اٹھتا ہے''


محمد یوسف پاپا

No comments:

Post a Comment