جہاں بھی ہم ٹھہر گئے مقام بولنے لگے
محبتوں کی بولیاں عوام بولنے لگے
سر غرور خم نہیں کوئی کسی سے کم نہیں
سکندروں کے سامنے غلام بولنے لگے
سنی جو جائے آنکھ سے وہ جسم کی زبان ہے
ہزار لب خموش ہوں خرام بولنے لگے
کوئی بھی شخص بے ادب وہ دن نہیں ہے دور جب
جنوں میں اپنے آپ کو امام بولنے لگے
سجا وہ جب دکان پر متاع عام جان کر
نئے امیر بد مزاج دام بولنے لگے
مفکرانہ اک نظر جو ڈالوں کائنات پر
خط شکستہ میں لکھا کلام بولنے لگے
حیات بخش آب کو میاں شفق شراب کر
چکھے بغیر آپ بھی حرام بولنے لگے
شفق تنویر
No comments:
Post a Comment