Sunday, 21 December 2025

جہاں بھی ہم ٹھہر گئے مقام بولنے لگے

 جہاں بھی ہم ٹھہر گئے مقام بولنے لگے

محبتوں کی بولیاں عوام بولنے لگے

سر غرور خم نہیں کوئی کسی سے کم نہیں

سکندروں کے سامنے غلام بولنے لگے

سنی جو جائے آنکھ سے وہ جسم کی زبان ہے

ہزار لب خموش ہوں خرام بولنے لگے

کوئی بھی شخص بے ادب وہ دن نہیں ہے دور جب

جنوں میں اپنے آپ کو امام بولنے لگے

سجا وہ جب دکان پر متاع عام جان کر

نئے امیر بد مزاج دام بولنے لگے

مفکرانہ اک نظر جو ڈالوں کائنات پر

خط شکستہ میں لکھا کلام بولنے لگے

حیات بخش آب کو میاں شفق شراب کر

چکھے بغیر آپ بھی حرام بولنے لگے


شفق تنویر

No comments:

Post a Comment