جس بات کا خدشہ تھا وہی بات ہوئی ہے
گھر دور بہت دور ہے جب رات ہوئی ہے
تا حد نظر وادئ ویراں کی زمیں پر
کل رات مسلسل گھنی برسات ہوئی ہے
پہلے کبھی دیکھا تو نہیں ہے تمہیں لیکن
محسوس یہ ہوتا ہے ملاقات ہوئی ہے
یوں ہم نے سنواری ہے یہ تحریر محبت
الفاظ کی نقطوں کی مدارات ہوئی ہے
ساحل پہ جو پہنچا مجھے دریا نے صدا دی
اس کھیل میں پہلے بھی تمہیں مات ہوئی ہے
احساس غم ذات نے چپی سی لگا دی
جس وقت زمانے سے ملاقات ہوئی ہے
رشید افروز
No comments:
Post a Comment