Monday, 22 December 2025

گردن میں رسن پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

 گردن میں رسن پاؤں میں زنجیر پڑی ہے

کیا یہ تِرے دیوانے کی تصویر پڑی ہے

تم قاتلِ اربابِ وفا ہو نہیں سکتے

شاید یہ کسی اور کی شمشیر پڑی ہے

آسان نہیں صبر کی منزل سے گزرنا

مشکل سے مِرے نالوں میں تاثیر پڑی ہے

ہم سے بھی کِیا تھا کبھی پیمانِ محبت

اب تک وہ تِرے ہاتھ کی تحریر پڑی ہے

ویسے ہی قیامت ہے تِرا حُسنِ سراپا

پھر تا بہ کمر زُلفِ گِرہ گِیر پڑی ہے

دیوانہ کہیں رہتا ہے پابندِ سلاسل؟

وہ دیکھیے ٹُوٹی ہوئی زنجیر پڑی ہے

گزرا ہوں میں تدبیر کی ہر راہ سے رونق

ہر راہ میں دشوارئ تقدیر پڑی ہے


رونق بدایونی

No comments:

Post a Comment