Saturday, 27 December 2025

سراپا درد ہے ہر لفظ اس غمگیں کہانی کا

 سراپا درد ہے ہر لفظ اس غمگیں کہانی کا

نہ قصہ سن سکو گے تم مری شام جوانی کا

وہی جان حزیں میری جو نکلی تھی محبت میں

بدل کر بھیس آئی ہے حیات جاودانی کا

پرانے ہو چکے ہیں لیلیٰ و مجنوں کے افسانے

سنو تو میں سناؤں اک نیا ٹکڑا کہانی کا

نقاب رخ الٹ کر آ نکل آ آج پردے سے

مری نظروں نے ذمہ لے لیا ہے پاسبانی کا

ستم دیکھو ذرا کیسی یہ الٹی رسم دنیا ہے

کہ دیتے ہیں یہاں گلچیں کو عہدہ باغبانی کا

نہ جانیں خود بخود کیوں آنکھ میں آنسو بھر آتے ہیں

کوئی جب نام لے دیتا ہے اے فاضل جوانی کا


فاضل کشمیری

No comments:

Post a Comment