سراپا درد ہے ہر لفظ اس غمگیں کہانی کا
نہ قصہ سن سکو گے تم مری شام جوانی کا
وہی جان حزیں میری جو نکلی تھی محبت میں
بدل کر بھیس آئی ہے حیات جاودانی کا
پرانے ہو چکے ہیں لیلیٰ و مجنوں کے افسانے
سنو تو میں سناؤں اک نیا ٹکڑا کہانی کا
نقاب رخ الٹ کر آ نکل آ آج پردے سے
مری نظروں نے ذمہ لے لیا ہے پاسبانی کا
ستم دیکھو ذرا کیسی یہ الٹی رسم دنیا ہے
کہ دیتے ہیں یہاں گلچیں کو عہدہ باغبانی کا
نہ جانیں خود بخود کیوں آنکھ میں آنسو بھر آتے ہیں
کوئی جب نام لے دیتا ہے اے فاضل جوانی کا
فاضل کشمیری
No comments:
Post a Comment