"جو کچھ دیکھا اک خواب ہی تھا اور جو بھی سنا افسانہ تھا"
ہم سمجھے تھے دنیا جس کو کچھ اور نہ تھا ویرانہ تھا
سر پھوڑ لیا فرہاد ہوا،۔ مجنوں بن کر بدنام ہوا
کی جس نے قائم رسمِ وفا زاہد وہ نہ تھا دیوانہ تھا
مندر کی گھنٹی بلاتی رہی، مسجد سے اذاں بھی آتی رہی
پر جس نے قدم روکے میرے کچھ اور نہ تھا میخانہ تھا
دکھ درد تِرا وہ سمجھے کیوں وہ درد کی لذت کیا جانے
اس رنج و الم کی نعمت سے لگتا ہے کہ وہ انجانہ تھا
ہم نے تو یہی جانا حیرت! ہم نے تو یہی سمجھا حیرت
انسان سے کی نفرت جس نے اللہ سے وہ بیگانہ تھا
حیرت فرخ آبادی
جیوتی پرساد مشرا
No comments:
Post a Comment