خبر کیا تھی بہاروں میں یہ رنگ گلستاں ہو گا
کہ صیادوں کے بس میں موج اپنا باغباں ہو گا
گلوں کی بے محل سے یہ ہنسی اعلان کرتی ہے
کسی دن برق کے دامن میں اپنا آشیاں ہو گا
تمہارے ظلم سہ کر بھی نہ کی اف یہ مِری ہمت
مگر تم نے تو سمجھا کہ شاید بے زباں ہو گا
سمجھ لے گا زمانہ صحنِ گُلشن میں بہار آئی
کبھی اٹھتا ہوا جب آشیانوں سے دھواں ہو گا
اگر حالات ایسے ہی رہے ان رہنماؤں کے
مخالف سمت منزل میں یقیناً کارواں ہو گا
بہاریں منتظر آنے کو ہیں لیکن یہ لازم ہے
بہار آنے سے پہلے موج اک دورِ خزاں ہو گا
موج رامپوری
No comments:
Post a Comment