Thursday, 18 December 2025

وہ جس کتاب میں چاہت کا سلسلہ نکلا

 وہ جس کتاب میں چاہت کا سلسلہ نکلا

ورق اسی میں ایک آنسو بھرا ہوا نکلا

تلاش میں نے کیا تھا سکون دل کے لیے

مگر یہ کار محبت بڑا جدا نکلا

خوشی تو آئی تھی مہمان کی طرح لیکن

غموں کے ساتھ ہمیشہ کا رابطہ نکلا

وہ دور تھا تو یہ لگتا تھا ہے بہت نزدیک

مگر قریب سے دیکھا تو فاصلہ نکلا

بتا رہا تھا جو پھولوں کا راستہ مجھ کو

اسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا نکلا

ہزاروں درد طبیبوں نے ٹھیک کر ڈالے

مگر یہ درد محبت ہی لا دوا نکلا

اجالے دیکھ کے حیران ہیں میری قسمت

جو میرے گھر سے اندھیروں کا قافلہ نکلا

چلے گئے بھی تو کیا قہقہوں کی محفل میں

مزاج اپنا وہاں بھی بجھا ہوا نکلا

وہ جی رہا ہے زمانے میں شان سے ہانی

وہ جس کے نفس کا دامن جلا ہوا نکلا


ہانی بریلوی

No comments:

Post a Comment