وہ جس کتاب میں چاہت کا سلسلہ نکلا
ورق اسی میں ایک آنسو بھرا ہوا نکلا
تلاش میں نے کیا تھا سکون دل کے لیے
مگر یہ کار محبت بڑا جدا نکلا
خوشی تو آئی تھی مہمان کی طرح لیکن
غموں کے ساتھ ہمیشہ کا رابطہ نکلا
وہ دور تھا تو یہ لگتا تھا ہے بہت نزدیک
مگر قریب سے دیکھا تو فاصلہ نکلا
بتا رہا تھا جو پھولوں کا راستہ مجھ کو
اسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا ہوا نکلا
ہزاروں درد طبیبوں نے ٹھیک کر ڈالے
مگر یہ درد محبت ہی لا دوا نکلا
اجالے دیکھ کے حیران ہیں میری قسمت
جو میرے گھر سے اندھیروں کا قافلہ نکلا
چلے گئے بھی تو کیا قہقہوں کی محفل میں
مزاج اپنا وہاں بھی بجھا ہوا نکلا
وہ جی رہا ہے زمانے میں شان سے ہانی
وہ جس کے نفس کا دامن جلا ہوا نکلا
ہانی بریلوی
No comments:
Post a Comment