Sunday, 21 December 2025

رفتہ رفتہ خواہشوں کو مختصر کرتے رہے

 رفتہ رفتہ خواہشوں کو مختصر کرتے رہے

رفتہ رفتہ زندگی کو معتبر کرتے رہے

اک خطا تو عمر بھر ہم جان کر کرتے رہے

فاصلے بڑھتے گئے پھر بھی سفر کرتے رہے

خود فریبی دیکھیے شمعیں بجھا کر رات میں

ہم اجالوں کی تمنا تا سحر کرتے رہے

ہم سفر جا پہنچے کب کہ منزل مقصود پر

ہم خیالوں میں تلاش رہ گزر کرتے رہے

وہ بھی کچھ مصروف تھا اے دوست کار زیست میں

ہم بھی اپنی خواہشوں کو درگزر کرتے رہے

پرزے پرزے کرکے اس نے یوں دیا خط کا جواب

مدتوں تک اس کا ماتم نامہ بر کرتے رہے

چارہ گر تو کچھ علاج دل نہ کر پائے صہیب

ہم مریض دل علاج چارہ گر کرتے رہے


صہیب فاروقی

No comments:

Post a Comment