ظلم کا جام بھر نہ جائے کہیں
آہِ دل کام کر نہ جائے کہیں
کیا نہیں کوئی بے حسی کی دوا
میرا احساس مر نہ جائے کہیں
دو دِلے کا یقین کیا کرنا
وہ اچانک مُکر نہ جائے کہیں
خیت خواہی کے پردے میں کوئی
چپکے سے وار کر نہ جائے کہیں
قول والو! اشارہ کافی ہے
سر سے پانی گزر نہ جائے کہیں
جس نے تالے لبوں پہ ڈالے دئیے
وہ زبانیں کتر نہ جائے کہیں
کیا بھروسا کسی کبوتر کا
غیر چھت پر اتر نہ جائے کہیں
ہم نفاست پسند ہیں نامی
لقمہ دینا اکھر نہ جائے کہیں
نامی نادری
No comments:
Post a Comment