خواب کی کھڑکی سے اس کو دیکھنا اچھا لگا
نیند کے آنگن میں شب بھر جاگنا اچھا لگا
شہر نا پرساں تھا یوں بھی کون کس کو پوچھتا
ایک پل کو اس کا مڑ کر دیکھنا اچھا لگا
ساتھ تھا صحرا میں بھی وہ ہر قدم سایہ صفت
اس طرح شہر خرد سے لوٹنا اچھا لگا
خواب کیسا تھا کہ ساری عمر آنکھوں میں رہا
دھیان کس کا تھا کہ پہروں سوچنا اچھا لگا
چاندنی راتوں میں اکثر جاگ کر سوچا جسے
اس کا رستے میں اچانک سامنا اچھا لگا
فصل گل آئی تو کیا کیا صورتیں باہم ہوئیں
چہرہ چہرہ ایک صورت ڈھونڈنا اچھا لگا
جانے کیا کھویا کہ اب تک ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم
جانے کیا پایا کہ سب کچھ بھولنا اچھا لگا
نوشابہ نرگس
No comments:
Post a Comment