Saturday, 20 December 2025

خواب کی کھڑکی سے اس کو دیکھنا اچھا لگا

 خواب کی کھڑکی سے اس کو دیکھنا اچھا لگا

نیند کے آنگن میں شب بھر جاگنا اچھا لگا

شہر نا پرساں تھا یوں بھی کون کس کو پوچھتا

ایک پل کو اس کا مڑ کر دیکھنا اچھا لگا

ساتھ تھا صحرا میں بھی وہ ہر قدم سایہ‌ صفت

اس طرح شہر خرد سے لوٹنا اچھا لگا

خواب کیسا تھا کہ ساری عمر آنکھوں میں رہا

دھیان کس کا تھا کہ پہروں سوچنا اچھا لگا

چاندنی راتوں میں اکثر جاگ کر سوچا جسے

اس کا رستے میں اچانک سامنا اچھا لگا

فصل گل آئی تو کیا کیا صورتیں باہم ہوئیں

چہرہ چہرہ ایک صورت ڈھونڈنا اچھا لگا

جانے کیا کھویا کہ اب تک ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم

جانے کیا پایا کہ سب کچھ بھولنا اچھا لگا


نوشابہ نرگس

No comments:

Post a Comment