Wednesday, 17 December 2025

الم بھی ہار گئے یار بے دلی دیکھو

 الم بھی ہار گئے یار بے دلی دیکھو

جیے بغیر ہی اک عمر کاٹ دی دیکھو

گزر چکا ہے زمانہ کسے گزاروں میں

مجھے گزار رہی ہے یہ زندگی دیکھو

مرے مزاج کی سختی پہ طنز کرتے ہو

کبھی تو دیکھنے والو! مجھے سہی دیکھو

دل و دماغ پہ قابض ہے وقت کا صحرا

سراب خواب میں سکھتے ہیں تشنگی دیکھو

شب فراق ہے میں ہوں سخن کی محفل ہے

جو مجھ کو دیکھنا چاہو تو بس ابھی دیکھو

یہی تو ایک ہنر ہے جو میں نے سیکھا ہے

دکھانا چاہوں میں تم کو جو تم وہی دیکھو

نئے چراغ ہی جل جل کے روشنی دیں گے

بحر کو دیکھنے والو خیال بھی دیکھو

معانی ضبط کے آنگن سے ربط کرتے ہیں

پھلوں کے بوجھ سے اک شاخ جھک گئی دیکھو

بڑی بہن کی پرانی فراک عید کے دن

کسی غریب کی بیٹی کی بے بسی دیکھو

ہزار رات کا جاگا تھا سو گیا شارق

قمر کی آج بجھی سی ہے روشنی دیکھو


شارق قمر

No comments:

Post a Comment