الم بھی ہار گئے یار بے دلی دیکھو
جیے بغیر ہی اک عمر کاٹ دی دیکھو
گزر چکا ہے زمانہ کسے گزاروں میں
مجھے گزار رہی ہے یہ زندگی دیکھو
مرے مزاج کی سختی پہ طنز کرتے ہو
کبھی تو دیکھنے والو! مجھے سہی دیکھو
دل و دماغ پہ قابض ہے وقت کا صحرا
سراب خواب میں سکھتے ہیں تشنگی دیکھو
شب فراق ہے میں ہوں سخن کی محفل ہے
جو مجھ کو دیکھنا چاہو تو بس ابھی دیکھو
یہی تو ایک ہنر ہے جو میں نے سیکھا ہے
دکھانا چاہوں میں تم کو جو تم وہی دیکھو
نئے چراغ ہی جل جل کے روشنی دیں گے
بحر کو دیکھنے والو خیال بھی دیکھو
معانی ضبط کے آنگن سے ربط کرتے ہیں
پھلوں کے بوجھ سے اک شاخ جھک گئی دیکھو
بڑی بہن کی پرانی فراک عید کے دن
کسی غریب کی بیٹی کی بے بسی دیکھو
ہزار رات کا جاگا تھا سو گیا شارق
قمر کی آج بجھی سی ہے روشنی دیکھو
شارق قمر
No comments:
Post a Comment